غزل




یہ کیسا خوف کھایا ہوں حالات کے ڈر سے
 چھپ جاتی ہے صورت مری میری ہی نظر سے

 آب حیات ہے ترے دریا میں اس لیے
 میں تشنہ ہی آیا ہوں یزیدوں کے شہر سے

 بہلائے جنھیں چاندنی وہ کیا کریں آخر
 گر واسطہ اُن کا پڑا سورج کے قہر سے

 اُس چیز کی شبیہ کبھی مٹ نہیں سکتی
 لکھی گئی ہو جس کی سند خون جگر سے

 خاموش اس لیے ہے کیوں کہ جانتا ہے یہ
 وہ دیوتا بنا کسی کے دست ہنر سے

 طاقت نہیں لڑتے ہیں فقط پختہ عزائم 
آتی رہی ہے یہ صدا میدانِ بدر سے

 اس نور کی بخشی ہو جنھیں رب نے تجلی
 ڈرتے نہیں وہ آگ سے شعلوں سے شرر سے

کیوں پھر سے ہجرتوں کا ارادہ ہوا شاہد
 تم آج ہی لوٹے تھے مہینوں کے سفر سے



ڈاکٹر سرتاج احمد(لیکچرراُردو) ادب کے طالبِ علم ہیں۔ شاعری کے ساتھ لگاؤ جب کہ مابعد جدید تنقید اور مشرقی شعریات کے موضوع پر تحقیقی کام کیا ہے جس پر کشمیر یونیورسٹی سے انھیں پی ایچ۔ڈی کی سند تفویض ہوچکی ہے۔ 
رابطہ : baddersartaj678@gmail.com

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.